اسلام آباد – قومی اسمبلی نے بدھ کے روز انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم کی منظوری دے دی، جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں، مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کو ’’مشتبہ‘‘ افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار دوبارہ دے دیا گیا۔
یہ ترمیم سیکشن 11EEEE کی بحالی ہے جو 2014ء میں شامل کیا گیا تھا تاکہ تفتیش کے لیے پیشگی حراست ممکن بنائی جا سکے، مگر دو سالہ مدت ختم ہونے کے بعد 2016ء میں یہ شق ختم ہو گئی تھی۔ نئے قانون کے تحت ریاستی ادارے ان افراد کو حراست میں رکھ سکیں گے جن پر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، تاوان کے لیے اغوا، بھتہ خوری یا پاکستان کی سلامتی و امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے شبہات ہوں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ و انسدادِ منشیات طلال چوہدری کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں کہا گیا کہ موجودہ سیکیورٹی حالات ایک مضبوط قانونی ڈھانچے کے متقاضی ہیں تاکہ دہشت گردانہ منصوبوں کو عملی جامہ پہننے سے پہلے ناکام بنایا جا سکے۔ اس ترمیم کے تحت مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں (JITs)، جن میں پولیس، انٹیلی جنس اور فوجی نمائندے شامل ہوں گے، جامع تحقیقات اور قابلِ عمل معلومات اکٹھی کر سکیں گی۔
ترمیم کے مطابق حراست کا حکم ’’مناسب وجوہات‘‘ کی بنیاد پر تحریری طور پر جاری کیا جائے گا اور ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہو گا۔ یہ قانون انسدادِ دہشت گردی (ترمیمی) ایکٹ 2025ء کے نفاذ سے تین سال تک نافذ العمل رہے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو یقین دلایا کہ یہ اختیارات صرف مخصوص حالات میں استعمال ہوں گے، تاہم اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جیسے قوانین کو پہلے سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے خبردار کیا کہ یہ قانون سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، جبکہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس سے ہر شہری کو ممکنہ مجرم سمجھا جائے گا اور دہشت گردی ختم کرنے میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
بل کی شق وار منظوری کے بعد 125 ووٹ حق میں اور 59 ووٹ مخالفت میں آئے۔