مرزا غلام مصطفیٰ
(رحمٰن جلالی، سردار پنجاب خان سندھی)
صحافت بیتی” پر ہمارے دوست ،بے پناہ صلاحیتوں کے مالک،خوبصورت انسان” اور سینیئر صحافی مرزا غلام مصطفی کا تبصرہ۔۔۔مرزا جی آپ کی محبتوں کا کوئی بدل نہیں۔۔سلامت رہیں .
تاثرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“صحافت بیتی”
پاکستان کی صحافتی تاریخ کا معتبر حوالہ
ایک دیانتدار صحافی کی زبانی عہدِ صحافت کی آئینہ دار داستان ۔۔۔
پاکستان میں صحافت کے نشیب و فراز کی عینی شہادت ۔۔۔
صحافت کے سنہری دور سے لے کر موجودہ دور کی پیچیدگیوں تک کا احاطہ ۔۔۔
تجربے کی گہرائی اور سچ کی حرارت سے لبریز ۔۔۔
دنیا میں سات دن، سات سمندر،سات براعظم،
سات زمینیں ،سات آسمان، سات عجوبے، سات سُر
اور صحافت بیتی میں 7 مختلف الخیال ہم عصر صحافی
ایک کتاب میں یکجا ۔
اس ہفت بیانی کے کیا کہنے ۔۔۔۔۔۔۔
1- جھنگ کے طارق محمود المعروف محمود شام
2- نذیر لغاری
3- کشمیر کے محمد شریف المعروف عارف الحق عارف
4- انور سن رائے
5- وسعت اللہ خان
6- مظہر عباس
7- زاہد حسین
کتاب میں شامل ساتوں قد آور صحافتی شخصیات حساس عہدشناس دانشور۔۔
جن کے انٹرویوز میں صرف ایک صحافی کی زندگی کے
تلخ و شیریں واقعات اور ابتدائی جدوجہد سے عملی زندگی تک کے
مساعد و نامساعد حالات ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ پاکستان میں بدلتی ہوئی صحافتی قدروں، سیاسی دباؤ
اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے ارتقا کی مکمل روداد ہے۔
کہیں شعوری تو کہیں غیر ارادری یا نیم دلانہ طور پر
نظام کی مقتدر غلام گردشوں تک رسائی پالینے والوں
کی کہانی کے ذاتی گوشوں میں دلبرانہ درویشی بھی عیاں ۔۔
قاری محض واقعات نہیں پڑھتا بلکہ عہد ساز صحافت کے
مرتکز انتشار و انتشاری ارتکاز اور بدلتے مزاج کو محسوس کرتا ہے۔
ضمیر ،ذات اور پیشے کے درمیان
دہائیوں پر محیط فکری مکالمے کی سرگزشت ۔۔۔
مصنوعی لفاظی سے پاک، نرم و گرم حالات اور
فکرانگیز بوجھل حقائق کی سچائی سے بھرپور ۔۔۔
قاری کو ایک عہد کی فضا، اس کے دباؤ، اس کی کمزوریاں
اور اس کی صداقتیں ذاتی مشاہدے اور تجربے کے قریب تر محسوس ہوتی ہیں۔
“صحافت بیتی” پاکستانی صحافت کی تاریخ، مشکلات اور اقدار کا دیانتدار آئینہ ہے۔
خبر، ضمیر اور ذمہ داری کے رشتے کا بوجھ
کبھی مخملیں تو کبھی دم گھونٹ دینے والا۔
صحافت کے زوال اور ممکنہ اصلاح کے پہلو بھی اجاگر ۔۔۔
سچ بولنے اور سچ جھیلنے والوں کی صحافتی روح کی بیتی
“صحافت بیتی” از سجاد عباسی
خبر کے حصول کی مشکلات، ادارتی دباؤ، سنسرشپ، اور میڈیا کی بدلتی قدریں ۔
اور ان کے مابین کشمکش کے حقائق ۔۔۔
جن میں شخصیات ، اداروں،سیاست اور نظام کی
ستر پوشی سے بے حجابی تک کے کئی پہلوعیاں ہیں ۔۔۔

ہر اس قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ، جو میڈیا کی دنیا کے
اندرونی حقائق جاننا اور سمجھنا چاہتا ہے۔
“صحافت بیتی” دراصل اُن تمام نسلوں کے لیے
سبق آموز مطالعہ ہے جو صحافت کو محض پیشہ نہیں
بلکہ خدمت اور ذمہ داری سمجھتی ہیں۔
یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے مشعل راہ ہے
جو جدتوں کے پُرفریب دور میں بھی صحافت کو
خدمت سمجھنا چاہتا ہے،کاروبار نہیں ۔۔۔
یہ کتاب نئی نسل کے صحافیوں کے لیے نصیحت بھی ہے
اور قطب نما بھی۔
جو لوگ خبر کے میدان میں قدم رکھنا چاہتے ہیں،
ان کے لیے “صحافت بیتی” ادوار کے تسلسل کی
ایک فکری تربیت گاہ ہے۔
سجاد عباسی کی “صحافت بیتی” اس بات کا ثبوت ہے
کہ سچ اگر خلوصِ نیت سے لکھا جائے تو لفظ خود تاریخ بن جاتے ہیں
نوٹ ۔۔۔
اقتباسات درج کرنے سے احتراز اس لئے کہ
اہم شخصیات، ادوار اور نظام کے حوالہ جات و واقعات
نقل کرنے لگیں تو چند اوراق و سطور چھوڑ کر
شائد پوری “صحافت بیتی” سامنے آ جائے ۔
اس سے مصنف کے طرز تحریر کی تاثیر کا تصور بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں اظہار تشکر کہ کتاب میں سجاد عباسی صاحب نے نہ صرف
دہائیوں کا آپ بیتی جیسا ماحول تازہ کیا بلکہ اساتذہ سے تحریری ملاقات بھی کروائی ۔۔۔
خصوصی شکریہ اور احسان مندی اس بات کی
کہ سجاد عباسی صاحب راقم الحروف جیسے
حقیر پُرتقصیر کو بھی حلقہ احباب میں شمار رکھ کرعزت افزائی فرماتے ہیں ۔۔۔
شکریہ ۔۔ سجاد بھائی
اس دعا کے ساتھ کہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
……………………………
“صحافت بیتی” میں موجود اور مذکور شفیق شخصیات
کے ساتھ کام کرنے کا شرف بھی حاصل رہا ۔
مظہر عباس صاحب اور محمود شام صاحب کے ساتھ
اے آر وائے کراچی میں
وسعت اللہ خان صاحب کے ساتھ ڈان نیوز کراچی میں ۔
ضیا شاہد،فرہاد زیدی صاحب،محبوب علی خان صاحب
اورنادر شاہ عادل صاحب کے ساتھ خبریں لاہور اور کراچی میں
جبکہ سجاد عباسی صاحب کی زیرنگرانی روزنامہ امت
کراچی اور راولپنڈی،اسلام آباد میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیگر سے کراچی پریس کلب کی نشستوں میں گاہے بگاہے
بہت کچھ سیکھنے اور ان سے سیکھنے والوں سے بھی
سیکھنے کا شرف حاصل رہا ۔۔ الحمدللہ
اسی کتاب کے توسط سے یہ عقدہ بھی کھلا کہ
لغاری صاحب اور راقم ، پیر بھائی بھی ہیں۔
شاہین صاحب مرحوم لغاری صاحب کے بھی استاد رہے
اور راقم بھی ایل ایل بی کے دوران شاہین صاحب مرحوم
کے شاگردوں میں شامل رہا ۔۔۔
اپنے تمام سینئرز کے لئے یہی عرض کرسکتا ہوں کہ
’’ میں اُن کی ندامت وہ میرا فخر ہیں‘‘