فضل الرحمن کا ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر ردعمل: “یہ اسرائیلی توسیع کا فارمولا ہے” پی ٹی آئی نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا

لاہور/اسلام آباد — جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینی ریاست کے قیام یا بیت المقدس کی آزادی کا نہیں بلکہ اسرائیلی توسیع کا فارمولا ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا: “آج ٹرمپ اور نیتن یاہو کا دن ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ زمینی حقائق کو نظرانداز کرتا ہے اور فلسطینی عوام پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش ہے۔

امریکی منصوبے میں جنگ بندی، یرغمالیوں کا تبادلہ، غزہ کی غیر عسکری حیثیت اور عبوری حکومت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں، لیکن حماس کے کسی کردار کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا: “حماس اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا غزہ کی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔”

مولانا فضل الرحمن نے اس موقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حماس فلسطینی عوام کی منتخب جماعت ہے اور اسے نظرانداز کرنا دراصل ان پر فیصلہ مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا: “فلسطینی مسئلہ حماس کو اصل فریق تسلیم کیے بغیر کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کھلم کھلا نیتن یاہو کے مجرمانہ اقدامات کی پشت پناہی کر رہا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا: “اسرائیل فلسطین کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطین اسرائیل کو نہیں مانتا۔ ایسے حالات میں دو ریاستی حل خواہش ہو سکتا ہے لیکن کوئی اسے فلسطینی عوام پر مسلط نہیں کر سکتا۔”

فضل الرحمن نے وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر پر بھی تنقید کی کہ وہ ٹرمپ پلان کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیانات تضاد کا شکار ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اس منصوبے کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی غزہ امن منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور مقبوضہ شامی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ ماننا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں سابق وزیراعظم عمران خان کے مؤقف کو دہرایا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن صرف ایک منصفانہ دو ریاستی حل سے ممکن ہے، جو فلسطینی عوام کی امنگوں کی حقیقی عکاسی کرتا ہو۔

اپنا تبصرہ لکھیں