اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت پولیس نے اتوار کے روز متعدد مقامات پر چھاپے مارے تاکہ ان وکلاء کو گرفتار کیا جا سکے جن پر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) کے صدر کے ساتھ جھگڑے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ایف آئی آر سیکریٹریٹ تھانے میں آئی ایچ سی بی اے کے صدر سید واجد علی شاہ گیلانی کی مدعیت میں درج کی گئی، جس میں 70 وکلاء سمیت 150 سے 200 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا۔
مقدمے کے بعد پولیس نے وارنٹ حاصل کیے اور مختلف ٹیموں نے چھاپے مارے۔ شام تک کم از کم 17 چھاپے مارے گئے، جن میں 11 نامزد وکلاء کے گھروں پر بھی کارروائیاں شامل تھیں، لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی کیونکہ زیادہ تر افراد روپوش ہو گئے تھے۔
تحقیقات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ اور کنسٹیٹیوشن ایونیو پر نصب سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر کے شرکاء کی شناخت کی جا رہی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ایڈووکیٹ گیلانی کو پارکنگ ایریا میں 60 سے 70 وکلاء کے لباس میں افراد اور ان کے ساتھ 150 سے 200 نامعلوم افراد نے گھیر لیا۔ گروپ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف نعرے لگائے۔ جب گیلانی نے روکنے کی کوشش کی تو ہجوم نے ان پر حملہ کیا، گالیاں دیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ انہیں بعد میں بار کے عہدیداروں اور عملے نے بچایا۔
دوسری جانب شیریں مزاری نے کہا کہ رات ایک بجے پولیس نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا اور ایمان مزاری و ہادی علی چٹھہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ پولیس نے ایف آئی آر کا حوالہ دیا لیکن ان کی عدم موجودگی پر واپس چلی گئی۔ مزاری نے کہا کہ ویڈیوز واضح کرتی ہیں کہ الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ سب سیاسی انتقام ہے۔
رپورٹس کے مطابق وکلاء نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی معطلی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ صورتحال اس وقت کشیدہ ہوئی جب پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء نے مظاہرے کے بعد آئی ایچ سی بی اے کے صدر کا سامنا کیا۔