اسرائیلی حملے میں ناصر اسپتال پر 5 صحافی جاں بحق، عالمی سطح پر مذمت

غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیلی فورسز کی بمباری نے ناصر اسپتال کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم 21 افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں پانچ صحافی بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں الجزیرہ کا کیمرہ مین بھی شامل ہے۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔

یہ حملہ پیر کو دو مرحلوں میں کیا گیا، جسے ماہرین ’’ڈبل ٹیپ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ دوسرے دھماکے کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں امدادی کارکن اور صحافی زخمیوں کی مدد کرتے دکھائی دیے اور اسی دوران براہِ راست بمباری کا نشانہ بن گئے۔ اسی روز ایک اور صحافی حسن دوحان، جو روزنامہ الحیات الجدیدہ کے نمائندے تھے، خان یونس میں الگ حملے میں جاں بحق ہوئے۔

پریس تنظیموں کے مطابق اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک اسرائیل 270 سے زائد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو قتل کر چکا ہے، جسے تاریخ کی سب سے خطرناک جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔

جاں بحق ہونے والے صحافی

احمد ابو عزیز (29 سالہ)
غزہ کی صحافتی برادری میں نرم خو اور باوقار سمجھے جانے والے احمد کئی مقامی و بین الاقوامی اداروں سے وابستہ تھے۔ شادی کے صرف چند ماہ بعد وہ شہید ہوئے۔ وہ تونس کی ایک یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم بھی تھے جس ادارے نے ان کے قتل کی مذمت کی ہے۔

حسام المصری (49 سالہ)
فلسطین ٹی وی اور خبر رساں ادارے رائٹرز کے لیے کام کرنے والے تجربہ کار فوٹو جرنلسٹ حسام ناصر اسپتال میں لائیو کوریج کر رہے تھے کہ اچانک حملہ ہوا۔ چند روز قبل انہوں نے ساتھیوں سے اپنی بیمار اہلیہ کے علاج کے لیے مدد کی اپیل کی تھی۔ اب ان کی اہلیہ کینسر سے اکیلے لڑ رہی ہیں۔

مریم ابو دقہ (33 سالہ)
فری لانس فوٹو جرنلسٹ مریم 13 سالہ بیٹے غیث کی ماں تھیں جسے انہوں نے جنگ کے خوف سے دبئی میں والد کے پاس بھیج دیا تھا۔ وہ اے پی اور انڈیپنڈنٹ عربیہ سمیت کئی اداروں کے ساتھ کام کر رہی تھیں اور اپنی انتھک محنت اور بہادری کی وجہ سے ساتھیوں میں نمایاں تھیں۔

محمد سلامہ (24 سالہ)
الجزیرہ کے نوجوان کیمرہ مین محمد اپنی خوش مزاجی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باعث جانے جاتے تھے۔ نومبر میں اپنی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے منگیتر ہالا اسفور سے شادی کی امید باندھی تھی، مگر قتال نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ وہ الجزیرہ کے دسویں صحافی ہیں جو اس جنگ میں مارے گئے۔

معاذ ابو طہ (27 سالہ)
نوجوان ویڈیو جرنلسٹ معاذ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک جنگ کی تباہ کاریوں کو کیمرے میں محفوظ کیا۔ اپنے ساتھی حسام کی شہادت کے بعد بھی وہ رپورٹنگ کر رہے تھے کہ دوسرا حملہ ان کی جان لے گیا۔ ان کے بھائی نے بتایا کہ وہ صرف کپڑوں سے پہچانے جا سکے۔

غزہ کی صحافت پر کاری ضرب

یہ صحافی صرف خبر نگار نہیں تھے بلکہ والدین، بیٹے، بیٹیاں اور ہمسائے بھی تھے۔ ان کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ غزہ میں صحافت محض پیشہ نہیں بلکہ زندگی اور موت کی جنگ ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے اور اسرائیل کو اس کے لیے جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ غزہ کی کم ہوتی صحافتی برادری کے لیے یہ سانحہ محض پیشہ ورانہ نقصان نہیں بلکہ ذاتی اور اجتماعی المیہ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں