نیتن یاہو کا “گریٹر اسرائیل” بیان خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے، اسحاق ڈار

اسلام آباد: نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پیر کو متنبہ کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے حالیہ بیانات، جن میں انہوں نے “گریٹر اسرائیل” کے تصور کی حمایت کی ہے، خطے کے امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے i24 نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے جب “گریٹر اسرائیل” کے تصور کی حمایت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے “بالکل” کہہ کر اس کی توثیق کی۔ ان کے بیان پر دنیا بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا، جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسرائیلی وزیردفاع نے غزہ شہر پر قبضے کی منصوبہ بندی کی منظوری دی اور تل ابیب حکومت نے ایک نئے غیرقانونی بستی منصوبے کی اجازت دی، جس کا مقصد مغربی کنارے کو مشرقی یروشلم سے کاٹ دینا ہے۔

جدہ میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈار نے کہا کہ اسرائیل نے ایک بار پھر “بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی” کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے بقول، اسرائیلی وزیراعظم کے “گریٹر اسرائیل” کے اشارے اور غزہ پر فوجی قبضے کی منصوبہ بندی اسرائیل کے “جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم” کو بے نقاب کرتی ہے۔

پاکستان نے نیتن یاہو کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ اقدام غزہ کے انسانی بحران کو مزید بگاڑ دے گا اور امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرے گا۔ ڈار نے بتایا کہ پاکستان عرب-اسلامی وزارتی کمیٹی اور 31 دیگر ممالک کے ساتھ، او آئی سی، عرب لیگ اور خلیجی تعاون کونسل کے اشتراک سے اس اسرائیلی اعلان کو مسترد کرتا ہے، کیونکہ یہ غیرقانونی قبضے کو طاقت کے ذریعے مضبوط کرنے کی ایک خطرناک کوشش ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا حوالہ دیتے ہوئے ڈار نے کہا کہ اس المیے کی “اصل وجہ اسرائیل کا طویل قبضہ” ہے۔ ان کے بقول، جب تک یہ قبضہ ختم نہیں ہوتا، خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان عرب ممالک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے دفاع میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

ڈار نے کہا کہ “غزہ معصوم جانوں اور بین الاقوامی قانون کی قبرگاہ بن چکا ہے۔” انہوں نے بتایا کہ اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، اقوام متحدہ کی تنصیبات اور امدادی قافلوں کو نشانہ بنانا اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ اس وقت غیرمعمولی قحط کا شکار ہے اور محاصرہ جاری رہنے سے یہ صورتحال مزید سنگین ہورہی ہے۔ ڈار نے فلسطین کو فوری تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ان کے مطابق صرف ہمدردی کافی نہیں، فلسطینی عوام کو عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ “او آئی سی کو متحد ہوکر مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا، ایک اور نکسہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔”

انہوں نے بحران کے حل کے لیے سات ہنگامی اقدامات تجویز کیے، جن میں فوری جنگ بندی، محفوظ انسانی امداد کی فراہمی، یو این آر ڈبلیو اے کی امداد کو مستحکم کرنا، جبری بے دخلی اور غیرقانونی آبادکاری کا خاتمہ، غزہ کی تعمیر نو کے او آئی سی منصوبے پر عملدرآمد، دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کی بحالی اور اسرائیلی جنگی جرائم پر احتساب شامل ہیں۔

اجلاس کے موقع پر ڈار نے ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ایرانی ہم منصب سے گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے غزہ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد پر زور دیا۔ سعودی وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت میں دو طرفہ تعلقات، غزہ کی تعمیر نو اور علاقائی استحکام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈار او آئی سی کے 21ویں غیرمعمولی اجلاس میں شرکت کے لیے جدہ پہنچے تھے، جہاں 57 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینی حقوق کی پامالی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر غور کررہے ہیں۔

دوسری جانب، پاکستان نے غزہ کے لیے اپنی 21ویں امدادی کھیپ روانہ کی، جس میں 100 ٹن راشن بیگز، فوری کھانے اور ڈبہ بند خوراک شامل ہے۔ اب تک پاکستان 2,000 ٹن سے زائد امداد غزہ بھیج چکا ہے۔

فلسطینی حکام کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 62 ہزار سے زائد افراد شہید اور تقریباً 1 لاکھ 58 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ افراد قحط کی لپیٹ میں ہیں اور بھوک کی شدید صورتحال تیزی سے پھیل رہی ہے، جبکہ اسرائیل غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جسے وہ “حماس کا آخری گڑھ” قرار دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں