اسلام آباد – سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں تاحال اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِ التواء ہیں، اور عدالتی پالیسی کے مطابق ان کی جلد سماعت کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 190 ملین پاؤنڈ القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں، تاہم ہائیکورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ اپیلیں کئی ماہ تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکتیں۔
اعلیٰ عدلیہ کی تشکیل کردہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (NJPMC) کے فیصلے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک “فکسیشن پالیسی” وضع کی ہے، جس کے تحت پرانے اور سنگین مقدمات کو ترجیح دی جائے گی۔ اس وقت عدالت میں 279 فوجداری اپیلیں زیرِ التواء ہیں جن میں 63 سزائے موت، 73 عمر قید اور 88 سات سال یا اس سے زائد کی سزا کے مقدمات شامل ہیں۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیل بھی اسی تیسرے گروپ میں شامل ہے۔
ریکارڈ کے مطابق سب سے پرانا زیرِ التواء کیس 2017 کا ہے، اس لیے عمران خان کی اپیل، جو 31 جنوری 2025 کو دائر کی گئی، طے شدہ فہرست میں اپنی باری پر ہی سنی جائے گی۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ان کی اپیل پر سماعت سے قبل کئی پرانے مقدمات نمٹائے جائیں گے۔
ادھر توشہ خانہ کیسز میں بھی عمران خان کی اپیلیں بدستور زیرِ سماعت ہیں۔ اگرچہ ایک کیس میں ان کی سزا معطل ہو چکی ہے مگر دیگر سزاؤں کی موجودگی کے باعث وہ تاحال قید میں ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اپیلوں کا فیصلہ عمران خان کے سیاسی مستقبل پر براہِ راست اثر ڈالے گا، لیکن موجودہ عدالتی پالیسی کے تحت یہ قانونی جنگ اگلے سال تک کھچ سکتی ہے۔