اسلام آباد: وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک افغان طالبان اپنی سرزمین سے پاکستان پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کو قابو میں رکھتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے پاک افغان سرحد پر شدید جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے — جو 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے اب تک کا سب سے خونریز تصادم تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ دوحہ میں قطر اور ترکی کی ثالثی سے طے پایا۔
خواجہ آصف نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنے دفتر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا،
“افغانستان کی جانب سے کوئی بھی جارحانہ اقدام اس معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔ تمام چیزیں اسی ایک شق پر منحصر ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ پاکستان، افغانستان، ترکی اور قطر کے مابین طے پانے والے معاہدے میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی سرحدی دراندازی نہیں ہوگی۔
وزیر دفاع نے الزام عائد کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان کی سرزمین سے طالبان حکومت کی “ملی بھگت” سے پاکستان پر حملے کرتی ہے — تاہم کابل ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
الجزیرہ عربی کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے جو کئی برسوں سے پاک افغان سرحدی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قطر اور ترکی کے رہنماؤں — شیخ تمیم بن حمد الثانی اور رجب طیب اردوان — نے معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وزیر دفاع کے مطابق، آئندہ ہفتے استنبول میں ایک اجلاس میں معاہدے کے نفاذ کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ افغان وزیر دفاع نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ دہشت گردی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ کئی سالوں میں دہشت گردی کے باعث بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے، تاہم اب امید ہے کہ امن بحال ہو گا اور پاک افغان تعلقات معمول پر آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تجارت اور ٹرانزٹ سرگرمیاں بھی بحال ہوں گی، جس کے بعد افغانستان دوبارہ پاکستان کی بندرگاہوں سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کی اجازت ہوگی، مگر غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی واپسی کا عمل جاری رہے گا۔
امریکی کردار سے متعلق سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ “یہ مکمل طور پر بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ پاکستان اب کسی صورت افغان معاملات میں مداخلت نہیں چاہتا۔ ہم صرف پرامن ہمسایہ بن کر رہنا چاہتے ہیں۔”
جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دوحہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے، اور تمام رابطے قطر اور ترکی کے ذریعے انجام دیے گئے۔
انہوں نے واضح کیا کہ معاہدے کا مسودہ صرف ایک صفحے پر مشتمل ہے، اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا طویل ورژن “غلط اور غیر مصدقہ” ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وہ امید اور احتیاط دونوں پر قائم ہیں:
“فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ معاہدہ مکمل طور پر کامیاب رہے گا یا نہیں۔ آئندہ چند ہفتے فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو قطر اور ترکی دوبارہ ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ٹی ٹی پی کی پوری قیادت افغانستان میں موجود ہے اور یہ معاملہ استنبول اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔
قطر کی پریس ریلیز سے لفظ “سرحدی کشیدگی” کے حذف ہونے سے متعلق سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ “یہ ایک معمولی معاملہ ہے، جس کا معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔”