اسلام آباد (ایم این این): اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے اتوار کو 8 فروری 2026 کو ملک گیر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا، جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے ملک گیر تحریک کے اشاروں کے بعد سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ گیا ہے۔
یہ تاریخ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کی دوسری برسی سے مطابقت رکھتی ہے، جن کے نتیجے میں موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار میں آئی تھی۔
اسلام آباد میں منعقدہ اپوزیشن کانفرنس میں نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نائب چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جبکہ حلیم عادل شیخ، زین شاہ اور دیگر رہنما صوبائی اور ضلعی سطح پر کمیٹیاں بنائیں گے۔
اتحاد نے تمام صوبائی دارالحکومتوں میں کانفرنسز کے انعقاد اور بار کونسلز، سول سوسائٹی اور عوام سے رابطے کا بھی اعلان کیا تاکہ آئین، قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کو منظم کیا جا سکے۔
کانفرنس میں محمود خان اچکزئی، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، اسد قیصر، سلمان اکرم راجہ، بی این پی کے سربراہ اختر مینگل سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایات پر ملک گیر تحریک کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان عوام سے رابطہ کریں گے اور دوسری کال کا انتظار کرنے کو کہیں گے، جبکہ تحریک راولپنڈی، لاہور، خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں تک پھیلائی جائے گی۔
کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ آزاد اور شفاف انتخابات کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں۔ شرکا نے فوری طور پر غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اور آئندہ انتخابات نئے تشکیل شدہ الیکشن کمیشن کے تحت کرانے کا مطالبہ کیا۔
شرکا نے 8 فروری کے انتخابات کی آزادانہ تحقیقات اور ذمہ دار افراد کے تعین اور سزا کا بھی مطالبہ کیا۔
کانفرنس میں الزام لگایا گیا کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کو کمزور کیا گیا اور دیانت دار ججز، جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عطاء من اللہ اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا شامل ہیں، کو ادارے سے باہر نکالا گیا، جبکہ باقی ججز کو دیوار سے لگانے کے انتظامات کیے گئے۔
شرکا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کارروائی پر بھی تنقید کی اور 1973 کے اصل آئین کے مطابق عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
کانفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف سزاؤں اور عمران خان کی بہنوں کے ساتھ مبینہ غیر انسانی سلوک، بشمول واٹر کینن کے استعمال، کی شدید مذمت کی گئی۔
شرکا نے عمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد، سرفراز چیمہ اور دیگر سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان نے پیکا قانون کو میڈیا آزادی کے خلاف قرار دیا اور ڈان میڈیا گروپ کو درپیش معاشی دباؤ پر تشویش کا اظہار کیا۔ صحافیوں سے یکجہتی کا اعلان کیا گیا اور صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف منشیات کیس کی مذمت کی گئی۔ وکلاء ایمان زینب مزاری حاضِر اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے خلاف مقدمات کو بھی مسترد کیا گیا۔
اپوزیشن نے غزہ میں پاکستانی افواج کی تعیناتی سے متعلق بیانات اور رپورٹس کو تشویشناک اور غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کسی بھی فیصلے سے قبل قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔
کانفرنس میں عالمی بینک کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کی 44 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جبکہ آئی ایم ایف رپورٹس کے مطابق 5 ہزار 300 ارب روپے کی کرپشن موجود ہے۔ حکومت پر مہنگائی، بے روزگاری اور غربت پر قابو پانے میں ناکامی اور عوامی ریلیف کے لیے واضح حکمت عملی نہ ہونے کا الزام لگایا گیا۔
شرکا نے سندھ اور بلوچستان میں خراب امن و امان کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بلوچ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
اتحاد نے خیبر پختونخوا اسمبلی جرگہ کی متفقہ قراردادوں پر عملدرآمد، صوبے کے واجب الادا وفاقی بقایاجات کی ادائیگی اور پشتون تحفظ موومنٹ پر عائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
شرکا نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت معدنیات صوبوں کی ملکیت ہیں اور صوبائی حکومتوں اور مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر بین الاقوامی معدنی معاہدے کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
کانفرنس میں ملک بھر میں طلبہ یونینز کی فوری بحالی کا بھی مطالبہ کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ موجودہ قومی بحران کے باوجود جمہوریت میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہونے چاہئیں۔