امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف کا نفاذ بدھ کے روز عمل میں آ گیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی نئی بلندیوں کو چھو گئی ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اربوں ڈالر کی تجارت متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ لاکھوں ملازمتیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
یہ نیا ٹیرف امریکہ کی جانب سے عائد کردہ سخت ترین محصولات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل واشنگٹن نے 30 جولائی کو بھارتی اشیاء پر 25 فیصد ٹیرف لگایا تھا اور صرف ایک ہفتے بعد مزید 25 فیصد اضافہ کیا گیا۔ امریکی حکام کے مطابق اس اقدام کی بنیادی وجہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی درآمدات ہیں، جنہیں بند کرنے کے لیے واشنگٹن کئی ماہ سے زور دے رہا تھا۔
اب جو 50 فیصد ٹیرف نافذ ہوا ہے اس میں کپڑے، جوتے، زیورات، قالین، فرنیچر اور کیمیائی مصنوعات شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بھارت کی امریکی منڈی میں مسابقت شدید متاثر ہو گی اور اس کے مقابلے میں چین، ویتنام، بنگلہ دیش اور پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا بھارت کو عالمی مینوفیکچرنگ حب بنانے کا خواب بھی اس فیصلے سے دھچکے کا شکار ہوا ہے۔
نیو دہلی کے تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو کے مطابق بھارتی برآمدات جو اس سال 86.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع تھی، وہ 2026 تک کم ہو کر صرف 50 ارب ڈالر رہ سکتی ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان ٹیکسٹائل، زیورات، جھینگے، قالین اور دستکاری کے شعبوں کو ہوگا جہاں برآمدات 70 فیصد تک گر سکتی ہیں اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
البتہ بھارتی دواسازی کی صنعت کو اس وقت استثنیٰ دیا گیا ہے کیونکہ امریکہ میں استعمال ہونے والی سستی جینیرک ادویات کا تقریباً نصف بھارت سے آتا ہے۔ اس کے برعکس اسٹیل، ایلومینیم اور آٹو موبائلز جیسے شعبوں پر علیحدہ ٹیرف عائد کیا جائے گا۔
وزیر اعظم مودی نے یوم آزادی کے موقع پر اعلان کیا کہ بھارت کو زیادہ خود انحصاری اختیار کرنی ہوگی۔ حکومت نے برآمد کنندگان کو نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے مالی مدد دینے کا عندیہ دیا ہے اور ساتھ ہی ٹیکس اصلاحات اور تنخواہوں میں اضافے کے ذریعے اندرونی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس واضح حکمت عملی نہیں ہے اور یہ اقدامات اتنے بڑے نقصان کو پورا نہیں کر سکیں گے۔
معاشی ماہرین کے مطابق یہ ٹیرف بھارت کی مجموعی قومی پیداوار پر تقریباً ایک فیصد اثر ڈال سکتا ہے۔ اس صورت حال نے نئی دہلی کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ امریکی انحصار پر نظر ثانی کرے اور یورپی یونین سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے تیز کرے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازع صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہے، کیونکہ موجودہ حالات میں نئی دہلی کو روس اور چین جیسے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات مزید مضبوط کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔