ٹرمپ اور نیتن یاہو کا غزہ امن منصوبے کا اعلان، پاکستان کی حمایت بھی اجاگر

واشنگٹن – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے پیر کے روز واشنگٹن میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن منصوبہ پیش کیا۔ ٹرمپ نے اس موقع کو “امن کے لیے ایک بہت بڑا دن” قرار دیا اور حیران کن طور پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے ان کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
ٹرمپ نے کہا: “پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل ہمارے ساتھ ابتدا ہی سے تھے۔ انہوں نے ابھی ایک بیان بھی جاری کیا ہے کہ وہ اس معاہدے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس کو سو فیصد سپورٹ کرتے ہیں۔”
ٹرمپ کا وژن: ’’مشرق وسطیٰ میں دائمی امن‘‘
ٹرمپ نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیا گیا 20 نکاتی منصوبہ نہ صرف غزہ میں خونریزی روکنے کے لیے ہے بلکہ یہ پورے مشرق وسطیٰ میں امن کی راہ ہموار کرے گا۔
انہوں نے کہا: “یہ بڑا منظر ہے، یہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی امن قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔”
ٹرمپ نے واضح کیا کہ عرب اور مسلم ممالک اور یورپی اتحادیوں سے وسیع مشاورت کے بعد اس منصوبے کو تشکیل دیا گیا۔
منصوبے کی بنیادی نکات
منصوبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
اسرائیل کے قیدیوں کی 72 گھنٹوں میں رہائی۔
اس کے بدلے میں اسرائیل کی طرف سے 250 عمر قید یافتہ فلسطینی اور 1700 گرفتار شدہ افراد کی رہائی۔
غزہ کی مکمل غیر عسکریت اور حماس کی تمام عسکری تنصیبات کا خاتمہ۔
سرنگوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کی تباہی۔
غزہ میں عبوری انتظامیہ کا قیام جو نہ حماس کے تحت ہوگی اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کے۔
اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلا جسے عالمی نگران ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ کی زیر نگرانی کرائے گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ عالمی بینک کی مدد سے غزہ کے لیے ایک نیا تکنیکی اور ماہرین پر مشتمل نظام تشکیل دیا جائے گا، جبکہ حماس یا کوئی اور تنظیم اس میں شامل نہیں ہوگی۔
حماس کے لیے ٹرمپ کا پیغام
ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ حماس منصوبے کو قبول کرے گی لیکن ساتھ ہی سخت انتباہ بھی دیا:
“اگر حماس نے انکار کیا تو ممکن ہے، لیکن بظاہر مثبت جواب ملے گا۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، بی بی (نیتن یاہو) آپ کو میرا مکمل تعاون حاصل ہوگا کہ آپ جو کرنا چاہیں وہ کریں۔”
نیتن یاہو کی تائید
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر کے منصوبے کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ یہ اسرائیل کے جنگی مقاصد سے مطابقت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا:
“یہ منصوبہ ہمارے تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کی عسکری صلاحیتوں کے خاتمے اور غزہ کی غیر عسکریت کو یقینی بنائے گا۔”
نیتن یاہو نے اپنے پانچ نکات پیش کیے:
یرغمالیوں کی فوری واپسی۔
حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنا۔
غزہ کی غیر عسکریت۔
اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول اور حفاظتی پٹی کا قیام۔
غزہ میں پرامن سول حکومت جو نہ حماس کے زیر انتظام ہوگی اور نہ فلسطینی اتھارٹی کے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حماس معاہدہ قبول کرے تو اسرائیل فوری طور پر مرحلہ وار انخلا شروع کرے گا۔
پاکستان کا کردار اور شہباز شریف کا ردعمل
صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کا ذکر کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اور ایک بیان میں کہا:
“میں صدر ٹرمپ کے منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ پائیدار امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کا نفاذ خطے میں دیرپا امن کے لیے ناگزیر ہے۔
پس منظر اور صورتحال
گزشتہ دو برسوں میں غزہ میں اسرائیلی حملوں سے 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 67 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے حالیہ رپورٹ میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
مستقبل کی سمت
ٹرمپ نے اس موقع پر کہا: “یہ وہ موقع ہے جب ہم حقیقی امن کے قریب ہیں۔ شاید ایران کو بھی ابراہام معاہدے میں شامل کیا جا سکے۔”
پریس کانفرنس کے اختتام پر نیتن یاہو نے کہا:
“ہم جنگ جیتنے اور امن کو وسعت دینے کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔”
اب سب کی نظریں حماس کے فیصلے پر ہیں۔ اس کی قبولیت یا انکار ہی یہ طے کرے گا کہ آیا غزہ میں جنگ ختم ہوگی یا خونریزی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں