وزیرِاعظم شہباز شریف کا اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب

ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دیا، بھارت سے مذاکرات کی پیشکش، فلسطین اور ماحولیاتی تبدیلی پر دوٹوک مؤقف

نیویارک — وزیرِاعظم شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سراہا، جنہوں نے رواں سال مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرائی۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کو ’’امن کا حقیقی داعی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بروقت مداخلت نے خطے کو ایک تباہ کن جنگ سے بچایا۔

مئی میں بھارتی جارحیت اور جنگ بندی

وزیرِاعظم نے یاد دلایا کہ مئی میں بھارت نے ’’بلا اشتعال‘‘ حملہ کیا جس کا پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت دفاع کیا۔ انہوں نے کہا:
“ہماری جری افواج نے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو کی قیادت میں انتہائی پیشہ ورانہ انداز اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ ہماری فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے سات جنگی طیارے تباہ کر دیے۔‘‘

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے ’’طاقت کی پوزیشن‘‘ سے جنگ بندی قبول کی، تاہم اس میں صدر ٹرمپ کی بھرپور سفارت کاری نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ’’ان کی مداخلت نہ ہوتی تو خطہ مکمل جنگ کی لپیٹ میں آ جاتا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

انہوں نے چین، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان، ایران، متحدہ عرب امارات اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان کو سفارتی حمایت فراہم کی۔

بھارت سے مذاکرات کی پیشکش اور کشمیر پر بات

وزیرِاعظم نے بھارت کو تمام تنازعات پر ’’مربوط، بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات‘‘ کی پیشکش کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ نئی دہلی کا دریاؤں کے پانیوں کے معاہدے کو معطل کرنے کا یکطرفہ اقدام ناقابلِ قبول ہے۔ ’’پاکستان اپنے 24 کروڑ عوام کے پانیوں پر حق کا بھرپور دفاع کرے گا۔‘‘

انہوں نے کشمیری عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن بھارت کا ظلم ختم ہوگا اور کشمیر کے عوام کو رائے شماری کے ذریعے حقِ خودارادیت ضرور ملے گا۔

فلسطین اور غزہ کی صورتحال

وزیرِاعظم نے فلسطینیوں کی حالت کو ’’عصرِ حاضر کا سب سے دلخراش المیہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل کی فوجی کارروائی کو ’’نسل کشی‘‘ سے تعبیر کیا اور کہا کہ معصوم عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔

انہوں نے ننھی فلسطینی بچی ہند رجب کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سب اس کے مقروض ہیں کیونکہ ہم اسے بچا نہ سکے۔‘‘ شہباز شریف نے کہا کہ سب سے چھوٹے تابوت سب سے بھاری ہوتے ہیں، ’’میں جانتا ہوں کیونکہ میں نے چھ سالہ پاکستانی بچے ارتضیٰ عباس کا تابوت اٹھایا۔‘‘

انہوں نے فلسطین کی آزادی اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی خودمختار ریاست کے قیام پر زور دیا اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیا۔ انہوں نے ان ممالک کا خیر مقدم کیا جنہوں نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا اور باقی دنیا سے بھی یہی مطالبہ کیا۔

دہشت گردی اور افغانستان

وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں اور دو دہائیوں سے فرنٹ لائن پر کھڑا ہے۔ ’’اگر ہم ان دہشت گردوں کو نہ روکتے تو وہ نیویارک اور لندن کی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہوتے۔‘‘

انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان آج بھی بیرونی سرپرستی میں دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے، خصوصاً افغانستان کی سرزمین سے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن افغانستان کا خواہاں ہے لیکن عبوری افغان حکومت کو چاہیے کہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔

اسلاموفوبیا اور انتہا پسندی

شہباز شریف نے کہا کہ دنیا میں اسلاموفوبیا تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ بھارت میں ہندوتوا پر مبنی انتہا پسندی عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ’’نفرت انگیز نظریات اور تقاریر کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے اسلاموفوبیا کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا خیر مقدم کیا۔

ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان کی مشکلات

وزیرِاعظم نے موسمیاتی تبدیلی کو دنیا کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان محض ایک فیصد سے بھی کم گلوبل ایمیشن میں حصہ ڈالتا ہے لیکن 2022 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب اس کی زندہ مثال ہیں۔ انہوں نے قرضوں کے بوجھ کو حل نہیں بلکہ مسئلہ بڑھانے والا قرار دیا۔ ’’ہم قرض نہیں بلکہ اپنی محنت اور ہمت سے معیشت کو سنبھالیں گے۔‘‘

عالمی یکجہتی پر زور

یوکرین جنگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ تصادم ختم ہونا چاہیے تاکہ انسانی جانیں بچ سکیں۔ انہوں نے دنیا بھر سے امن، انصاف اور شراکت داری کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔

خطاب کے اختتام پر شہباز شریف نے کہا: ’’پاکستان ہمیشہ امن، انصاف اور ترقی کے لیے کھڑا رہے گا۔ اقوامِ متحدہ کی 80ویں سالگرہ تاریخ کا صرف جشن نہیں بلکہ آئندہ 80 برسوں کے لیے ایک نئے سفر کی بنیاد ہونی چاہیے۔‘‘

اپنا تبصرہ لکھیں