پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیلاب متاثرین کی بحالی اور ریلیف کے طریقۂ کار پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ دونوں جماعتیں اگرچہ مرکز میں اتحادی ہیں، لیکن جمعرات کو ایک دوسرے پر سخت الزامات لگاتے ہوئے بی آئی ایس پی (بینظیر انکم سپورٹ پروگرام) کے استعمال پر شدید بحث کرتی رہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب متاثرین تک بروقت اور شفاف ریلیف پہنچانے کا واحد ذریعہ بی آئی ایس پی ہے، جس نے ماضی میں بھی اپنی افادیت ثابت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام نہ صرف کورونا وبا کے دوران بلکہ دیگر بحرانوں میں بھی متاثرین کی فوری مدد کا مؤثر ذریعہ رہا ہے۔ بلاول نے خبردار کیا کہ اگر چھوٹے کاشتکاروں کو فی الفور سہولت نہ دی گئی تو ملک کی زرعی معیشت اور غذائی تحفظ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے تناظر میں ماحولیاتی ایمرجنسی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ بلاول نے متاثرہ اضلاع کے کسانوں کے بجلی کے بل معاف کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔ سندھ حکومت کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’بینظیر ہاری کارڈ‘‘ کے ذریعے ایک سے پچیس ایکڑ زمین رکھنے والے کسانوں کو مالی مدد فراہم کی جائے گی، جبکہ کھاد کی مد میں بھی سبسڈی دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں وقت پر اقدام اٹھائیں تو نہ صرف گندم کی پیداوار بہتر ہوسکتی ہے بلکہ درآمدات سے بچتے ہوئے ملکی کسانوں پر سرمایہ کاری ممکن ہے۔
پی پی پی چیئرمین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پنجاب، خصوصاً جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت تاریخی نوعیت کی ہے، جس کے لیے مشترکہ قومی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قدرتی آفت کسی ایک صوبے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ بی آئی ایس پی کے ذریعے ملک بھر میں متاثرہ خاندانوں تک ریلیف پہنچائے، جیسا کہ ماضی میں کیا گیا تھا۔
بلاول نے وفاق کو اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ سیلاب کے آغاز پر بروقت عالمی برادری سے اپیل نہیں کی گئی۔ ان کے مطابق، ’’اگر ہم نے عالمی سطح پر فوری مدد مانگی ہوتی تو آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں سے بہتر پوزیشن میں مذاکرات ہوسکتے تھے۔‘‘
دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ڈی جی خان میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی سیلاب کے معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے، مگر بدقسمتی سے وہ پنجاب کے سیلاب کو سیاست کا ذریعہ بنا رہی ہے۔ اگر خدانخواستہ سندھ میں آفت آئے تو پنجاب ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔‘‘
انہوں نے بی آئی ایس پی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام صرف 10 ہزار روپے دیتا ہے، جو ان خاندانوں کے لیے ناکافی ہے جن کے مکانات، مویشی اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ مریم نواز نے اعلان کیا کہ پنجاب حکومت متاثرہ خاندانوں کو ایک ملین روپے فراہم کرے گی۔ ’’یہ ایک بہت سادہ سا حل ہے کہ صرف نقد امداد دی جائے، لیکن میرا مقصد ان کے گھر دوبارہ تعمیر کرنا اور کھوئی ہوئی فصلوں کی تلافی کرنا ہے۔‘‘
بین الاقوامی امداد نہ مانگنے پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے کہا: ’’میں نواز شریف کی بیٹی ہوں اور بھیک نہیں مانگوں گی۔ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے اربوں روپے ملتے ہیں۔ یہ رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے؟‘‘
سیلاب متاثرین کے معاملے پر یہ لفظی جنگ اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان حکمت عملی اور ترجیحات پر گہرا اختلاف موجود ہے۔