اسلام آباد میں پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء کی گول میز کانفرنس، 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کیلئے تباہ کن قرار

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء کی جانب سے منعقدہ گول میز کانفرنس میں مقررین نے 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق پر کاری ضرب قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے آئین کے تابع ہونے کے بجائے اس پر اثرانداز ہو رہے ہیں، اور اگر وکلاء نے تحریک نہ چلائی تو یہ جمہوریت، عدلیہ اور عوامی آزادیوں کے لیے اجتماعی موت ثابت ہوگی۔
ایمان مزاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلاء اور صحافیوں کو ریکارڈنگ سے روکنا، پی ٹی آئی وکلاء کو عدالت تک رسائی نہ دینا اور مخصوص بینچز کے ذریعے اہم مقدمات سننا عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے۔ ان کے مطابق عدالتوں اور پارلیمان سے انصاف ختم ہو چکا ہے، وکلاء کو اب سڑکوں پر آنا ہوگا۔
جسٹس (ر) شاہد جمیل نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک سیاہ باب ہے جس نے اداروں کو مینج کر دیا ہے اور ملک کو ایلیٹ کیپچر کا شکار بنا دیا ہے۔ ان کے مطابق اب اسلام آباد سے نئی جدوجہد کا آغاز ہونا چاہیے۔
سینئر قانون دان حامد خان نے کہا کہ سابق فوجی آمر ضیاء الحق اور پرویز مشرف ملک کو تباہی کی طرف لے گئے جبکہ موجودہ جنرلز ان سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ ان کے مطابق 8 فروری کو عوامی مینڈیٹ کا قتل عام ہوا، پارلیمنٹ اور وزیراعظم کٹھ پتلی ہیں اور اب ایجنسیاں وکلاء تحریکوں میں بھی مداخلت کر رہی ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور آزادی اظہار کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
ایڈووکیٹ نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ درخواستوں کو فل کورٹ میں سنا جانا چاہیے تھا لیکن 26ویں ترمیم کے بینیفشریز انصاف فراہم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے آج بارز اور وزارت قانون پر قابض ہیں، وکلاء کو اب قربانیاں دینی ہوں گی۔
علی بخاری نے کہا کہ آج کی گول میز کانفرنس 1932 کی یاد دلاتی ہے مگر اب معاملہ پاکستان کے وجود کا ہے۔ ان کے مطابق بارز نے ججز کے احتساب کے معاملے پر کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے جمہوری حق ہے اور وکلاء کو اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔

اپنا تبصرہ لکھیں