افغان طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ رہنماؤں کو “اشتعال انگیز” بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور افغانستان کو پاکستان میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان بارہا اس بات پر تشویش ظاہر کر رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان سرزمین کو استعمال کر کے سرحد پار حملے کرتی ہے۔ اسلام آباد کئی بار کابل پر زور دے چکا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے یا دہشت گردوں کو پناہ دینا، تاہم افغان حکام مسلسل ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بات اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل کو ایک انٹرویو میں کہی۔ یہ انٹرویو گل کے حالیہ دورۂ قندھار کے دوران پشتو زبان میں ریکارڈ کیا گیا۔
ٹی ٹی پی اور میڈیا میں منفی پروپیگنڈے جیسے مسائل کے حل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مجاہد نے کہا کہ دھمکی آمیز بیانات دینا معاملے کو مزید بگاڑتا ہے۔ ان کے بقول: “میڈیا میں بیانات دینا، ماحول خراب کرنا اور فوجی کارروائی کرنا دانشمندی نہیں۔” انہوں نے زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ مذاکرات اور دوروں کے ذریعے اعتماد بحال ہونا چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ ان کی حکومت “موجودہ ماحول اور پروپیگنڈے سے ناخوش” ہے کیونکہ یہ نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ افغانستان کے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کوئی نئی بات نہیں: “یہ سب 2003 سے ہوتا آ رہا ہے۔ پاکستان کو خود اقدامات کرنے چاہئیں اور کابل کے ساتھ معلومات شیئر کرنی چاہئیں تاکہ ہم بھی ان خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔”
تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کو بنوں یا کسی اور علاقے میں ہونے والے دھماکوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ “پاکستان کو اپنی سکیورٹی یقینی بنانی چاہیے،” انہوں نے کہا اور تجویز دی کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے اسباب پر بات کریں۔
ان کے یہ ریمارکس وزیراعظم شہباز شریف کے سخت پیغام کے بعد سامنے آئے، جس میں انہوں نے کابل کو خبردار کیا تھا کہ افغانستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہے یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ وزیراعظم نے یہ بات جنوبی وزیرستان میں 12 شہید فوجیوں کے جنازے میں شرکت کے بعد کہی تھی۔
پاک۔افغان تعلقات میں کشیدگی پر بات کرتے ہوئے مجاہد نے زور دیا کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ پاکستان کا “اندرونی معاملہ” ہے۔ انہوں نے کہا: “پاکستان کو یہ مسئلہ خود حل کرنا ہوگا اور اس پر کابل سے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں۔” ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ افغانستان اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ “ہم پاکستان میں لڑائی، خونریزی اور مشکلات نہیں چاہتے۔”
انہوں نے مزید کہا: “افغانستان پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے۔ الزامات اور دھمکیاں ماحول کو مزید خراب کرتی ہیں۔ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔”
آخر میں انہوں نے پاکستانی عوام کو پیغام دیا: “افغان عوام پاکستان میں بدامنی نہیں چاہتے۔ ہم تعلقات کی بہتری اور دونوں ممالک کے درمیان امن کے خواہاں ہیں۔”