ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اتوار کو ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ یہ مظاہرے اس عدالتی فیصلے سے ایک دن قبل ہوئے جس میں مرکزی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے سربراہ اوزگر اوزل کو عہدے سے ہٹانے کا امکان ہے۔
ٹیلی ویژن پر براہِ راست مناظر میں نظر آیا کہ عوام ترکی کے جھنڈے اور سی ایچ پی کے بینرز لہرا رہے تھے اور صدر رجب طیب ایردوان کے استعفے کے نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ اپوزیشن کو کچلنے کی ایک اور کوشش ہے۔
پیر کو عدالت فیصلہ سنائے گی کہ آیا 2023 میں ہونے والی سی ایچ پی کانگریس کو مبینہ بے ضابطگیوں کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا جائے یا نہیں۔ اس فیصلے سے نہ صرف اپوزیشن کی قیادت متاثر ہو سکتی ہے بلکہ ترکی کی معیشت اور آئندہ عام انتخابات (2028) پر بھی اس کے دور رس اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق عدالت فیصلہ مؤخر بھی کر سکتی ہے۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اوزل نے کہا کہ حکومت اقتدار بچانے کے لیے جمہوری اصولوں کو پامال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا:
“یہ مقدمہ سیاسی ہے، الزامات بے بنیاد ہیں۔ ہمارے ساتھی بے گناہ ہیں۔ یہ ایک بغاوت ہے — مستقبل کے صدر اور مستقبل کی حکومت کے خلاف بغاوت۔ ہم مزاحمت کریں گے، مزاحمت کریں گے، مزاحمت کریں گے۔”
حکومت کا مؤقف ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور کسی سیاسی دباؤ کے تحت کام نہیں کرتی۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اپوزیشن کے خلاف ایک منظم مہم کا حصہ ہیں، خاص طور پر اس کے بعد جب اپوزیشن نے گذشتہ سال کے بلدیاتی انتخابات میں استنبول اور انقرہ سمیت کئی بڑے شہروں میں کامیابی حاصل کی تھی۔
گزشتہ ایک سال میں 500 سے زائد اپوزیشن رہنماؤں کو حراست میں لیا جا چکا ہے جن میں 17 میئر بھی شامل ہیں۔ سب سے نمایاں گرفتاری استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی ہے، جو ایردوان کے سب سے بڑے سیاسی حریف تصور کیے جاتے ہیں۔ ان پر کرپشن اور دہشت گردی سے روابط کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جنہیں اپوزیشن سیاسی انتقام قرار دیتی ہے۔
سی ایچ پی، جو مصطفیٰ کمال اتاترک کی قائم کردہ جماعت ہے، گزشتہ برسوں میں ایردوان کی جماعت انصاف و ترقی پارٹی (اے کے پی) کے مقابلے میں تیزی سے ابھری ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اوزل کو ہٹانے کی صورت میں اپوزیشن تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے جبکہ غیر یقینی صورتحال ترک معیشت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو گی جو پہلے ہی مہنگائی اور کرنسی بحران سے دوچار ہے۔
یہ مظاہرے ماضی کے گیزی پارک احتجاج کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے ایردوان کی طرزِ حکمرانی کے خلاف بڑے عوامی ردعمل کی شکل اختیار کر لی تھی۔ بہت سے ترک شہری اس عدالتی فیصلے کو عدلیہ کی آزادی اور ترکی میں جمہوری تسلسل کا امتحان سمجھ رہے ہیں۔