اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ شہری عمر عبداللہ کی بازیابی کی درخواست پر سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کر دی، ساتھ ہی وزارتِ داخلہ کو متاثرہ خاندان کو معاوضے کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کے دوران حکومتی رویے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت دی کہ اگلی سماعت سے قبل خاندان کو امدادی چیک فراہم کیا جائے، بصورتِ دیگر وزارتِ داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری کو ذاتی حیثیت میں عدالت آنا ہوگا۔
وزارتِ دفاع کے نمائندے نے مؤقف اختیار کیا کہ ادائیگی کا معاملہ وزارتِ داخلہ کو بھجوا دیا گیا ہے، جس پر جسٹس کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ تو صرف ایک “ٹیسٹ کیس” ہے، ایسے کتنے ہی کیسز عدالتوں میں موجود ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے ہاں لارجر بینچ بنانے سے ڈرا جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں وزارتِ دفاع کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ عدالتیں اور وزارتِ دفاع تو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے ہیں۔”
جسٹس کیانی نے حکومت کی پالیسی پر سوال اٹھایا کہ “کیا پاکستان کے پاس اتنے بجٹ ہیں کہ سب لاپتہ افراد کے خاندانوں کو ادائیگیاں کی جائیں؟ کیا یہ ادائیگیاں آئی ایم ایف کے تعاون سے ہوں گی جبکہ آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے؟”
انہوں نے ریاست کے تضاد کو بھی نمایاں کیا: “جنہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا رہا اب انہی کو معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ اگر وہ واقعی دہشت گرد تھے تو انہیں گرفتار کر کے ٹرائل کیا جاتا اور سزا دی جاتی۔ لیکن ان کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے کروڑوں روپے بانٹے جا رہے ہیں۔”
جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ حکومت نے متاثرہ خاندانوں کو ادائیگی کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ تاہم جسٹس کیانی نے کہا کہ کمیشن کی کوئی حقیقی حیثیت نہیں۔
لاپتہ شہری کے والد نے عدالت کو بتایا کہ انہیں تاحال کوئی رقم ادا نہیں کی گئی، حالانکہ دو ماہ قبل اس بارے میں بیان دیا جا چکا ہے۔
عدالت نے سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے واضح کیا کہ وزارتِ داخلہ کو ہر صورت میں احکامات پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔