لاہور ہائی کورٹ نے حسن نیازی کی فوجی تحویل پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا

لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے حسن نیازی کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے، جس میں ان کی فوجی تحویل، ملٹری کورٹ کی کارروائی اور کورٹ مارشل کو چیلنج کیا گیا ہے۔

دو رکنی بینچ جسٹس طارق محمود باجوہ اور جسٹس سید شہباز رضوی پر مشتمل تھا، جس نے یہ مقدمہ اعتراضات کے ساتھ سنا۔ حسن نیازی، جو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بھانجے ہیں، نے یہ درخواست اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے دائر کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ 16 ستمبر کو رجسٹرار آفس کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر دلائل پیش کرے۔

رجسٹرار آفس نے مؤقف اپنایا تھا کہ درخواست کے ساتھ کمانڈنگ آفیسر کے حکم کی مصدقہ کاپی منسلک نہیں کی گئی اور یہ کہ معاملہ مناسب فورم پر نہیں لایا گیا۔ تاہم عدالت نے وفاقی حکومت سے باضابطہ جواب طلب کر لیا۔

اپنی درخواست میں حسن نیازی نے مؤقف اپنایا کہ 9 مئی کے واقعات میں گرفتاری کے بعد انہیں کسی سول عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرور روڈ پولیس نے عدالتی احکامات کے باوجود انہیں غیر قانونی طور پر فوج کے حوالے کیا۔ انہوں نے کمانڈنگ آفیسر کے 17 اگست 2023 کے نوٹیفکیشن کو بھی غیر قانونی قرار دیا، جس کے تحت انہیں فوجی تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا تھا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ حسن نیازی کو فوجی تحویل میں دینے، ملٹری کورٹ کی کارروائی اور کورٹ مارشل کو کالعدم قرار دیا جائے۔ مزید کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ ان کی رہائی کا حکم دے یا انہیں انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کرے۔

یہ پیش رفت اس وسیع تر پس منظر میں سامنے آئی ہے جب 9 مئی کے واقعات کے بعد عام شہریوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جن میں حسن نیازی سمیت متعدد رہنما اور کارکن ملوث بتائے گئے۔ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائلز نے آئینی و سیاسی بحث کو جنم دیا ہے، جس پر شدید تنقید اور قانونی چیلنجز بھی جاری ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں