ویب ڈیسک: حماس کے سینئر رہنما اور تنظیم کے بیرونِ ملک سب سے مؤثر شخصیات میں شمار ہونے والے خلیل الحیہ ان افراد میں شامل تھے جنہیں اسرائیل نے منگل کے روز قطر میں ایک غیر معمولی کارروائی کے دوران نشانہ بنایا۔
یہ حملہ دوحہ کے کتارا ڈسٹرکٹ میں زور دار دھماکوں اور دھوئیں کے بادلوں کے ساتھ گونج اٹھا، جس نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے اسے قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور سنگین اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔
الحیہ کا بڑھتا ہوا کردار
خلیل الحیہ گزشتہ سال اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار کی ہلاکت کے بعد حماس کی قیادت میں مرکزی کردار بن کر ابھرے۔ ہنیہ جولائی 2024 میں تہران میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے جبکہ سنوار اکتوبر میں غزہ میں ہلاک ہوئے۔ الحیہ اب دیگر تین رہنماؤں کے ساتھ مل کر تنظیم کی پانچ رکنی کونسل کا حصہ ہیں۔
1960 میں غزہ میں پیدا ہونے والے الحیہ نے 1980 کی دہائی میں اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں حماس کے بانی اراکین میں شامل ہوئے۔ وہ کئی بار اسرائیلی حراست میں رہے اور اپنے کئی قریبی رشتہ دار اسرائیلی فضائی حملوں میں کھوئے۔ 2007 میں ان کے غزہ شہر کے گھر پر حملے میں کئی اہلِ خانہ جاں بحق ہوئے، جبکہ 2014 کی جنگ میں ان کا بڑا بیٹا اسامہ، اس کی بیوی اور تین بچے بھی مارے گئے۔
الحیہ کئی برسوں سے قطر میں مقیم ہیں، جہاں وہ عرب و اسلامی دنیا سے حماس کے تعلقات کے نمائندہ ہیں۔ وہ جنگ بندی مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے میں تنظیم کے کلیدی مذاکرات کار رہے ہیں۔
جانی نقصان پر ابہام
ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا کہ الحیہ سمیت کئی سینئر رہنما ہلاک ہو گئے، لیکن حماس نے اس کی تردید کی۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رکن سہیل الہندی نے الجزیرہ کو بتایا کہ دوحہ میں مذاکراتی وفد محفوظ ہے۔ پاکستان میں موجود ایک نمائندے نے بھی کہا کہ “مذاکرات کاروں کی ہلاکت کی خبریں درست نہیں ہیں۔”
عالمی ردعمل
حملے کے فوراً بعد دنیا بھر سے شدید مذمت سامنے آئی۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اسے “دوحہ میں اسرائیل کی سنگین بمباری” قرار دیا اور کہا کہ یہ قطر کی خودمختاری پر حملہ اور خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسے “واضح خلاف ورزی” کہا اور قطر کے امن مذاکراتی کردار کی تعریف کی۔
پوپ لیو نے بھی غیر معمولی سخت بیان دیا اور “انتہائی سنگین نتائج” کی وارننگ دی۔
ترکی نے کہا کہ اسرائیل نے “توسیع پسندی اور دہشت گردی کو ریاستی پالیسی” بنا لیا ہے، جبکہ یو اے ای نے اسے “بزدلانہ اور کھلی جارحیت” قرار دیا۔
ایران نے کہا کہ یہ “بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی” ہے اور سعودی عرب نے بھی “سخت ترین الفاظ میں” مذمت کرتے ہوئے قطر سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔
خود قطر کی وزارتِ خارجہ نے اسے “رہائشی علاقوں پر مجرمانہ حملہ” قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کی “بے احتیاطانہ حرکتیں” ناقابلِ قبول ہیں۔
امریکی کردار اور سفارتی پہلو
امریکی حکام نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے واشنگٹن کو حملے سے قبل اطلاع دی تھی۔ قطر میں امریکی فضائیہ کا سب سے بڑا اڈہ موجود ہے۔ امریکی سفارت خانے نے دوحہ میں اپنے عملے کو پناہ لینے کی ہدایت دی۔
اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کارروائی کی منظوری دی تھی، تاہم امریکی حکام نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے حماس قیادت کو نشانہ بنایا اور شہری نقصان سے بچنے کے لیے “اہم احتیاطی تدابیر” اپنائیں۔
وسیع تر اثرات
یہ حملہ اس بات کا مظہر ہے کہ اسرائیل کی مہم غزہ، لبنان اور ایران سے نکل کر اب خلیجی ریاست قطر تک پھیل گئی ہے۔ دوحہ میں مقیم حماس قیادت جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے، اس لیے ان پر حملہ نہ صرف تنازع کو بڑھا سکتا ہے بلکہ سفارتی کوششوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں دھماکوں کے بعد لوگ بھاگتے دکھائی دیے، جبکہ دوحہ کے آسمان پر دھوئیں کے بادل چھا گئے۔
نتیجہ
یہ کارروائی خطے میں ایک نئے بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔ حماس کے لیے یہ ایک اور خونی باب ہے، قطر کے لیے اس کی ثالثی کے کردار کو براہِ راست چیلنج، اور عالمی سطح پر امن کی کوششوں کے لیے ایک سنگین رکاوٹ۔