لندن پولیس نے ہفتہ کے روز کم از کم 150 مظاہرین کو گرفتار کر لیا جب پارلیمنٹ اسکوائر میں حکومتِ برطانیہ کے فیصلے کے خلاف شدید جھڑپیں ہوئیں، جس میں فلسطین ایکشن گروپ پر عائد پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ ریلی ڈیفینڈ آور جیوریز نامی مہم گروپ کی جانب سے منظم کی گئی تھی جس میں تقریباً 1500 افراد شریک ہوئے۔ گروپ نے الزام لگایا کہ پولیس نے غیر ضروری طاقت استعمال کی، اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز جاری کیں جن میں مظاہرین کو زمین پر گراتے اور محض کتبے اٹھانے پر گرفتار کرتے دکھایا گیا، جن پر لکھا تھا: “میں نسل کشی کی مخالفت کرتا ہوں، میں فلسطین ایکشن کی حمایت کرتا ہوں۔”
برطانوی پریس ایسوسی ایشن نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے لاٹھی چارج کیا، ایک گرفتار مظاہر کے چہرے سے خون بہتا دکھائی دیا، جبکہ کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ پانی کی بوتلیں اور دیگر اشیاء بھی پولیس پر پھینکی گئیں جبکہ کئی افراد دھکم پیل میں زخمی ہو گئے۔
میٹروپولیٹن پولیس نے تصدیق کی کہ تقریباً 150 افراد کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، جن میں پولیس اہلکاروں پر حملہ اور کالعدم تنظیم کی حمایت شامل ہے۔ پولیس کے مطابق اہلکاروں کو غیر معمولی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا جس میں لاتیں، گھونسے، تھوک اور پتھراؤ شامل تھے۔
یہ کشیدگی اُس حکومتی فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے جو جولائی میں فلسطین ایکشن کو دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت کالعدم قرار دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس سے قبل گروپ نے برطانیہ کے ایک ایئر فورس بیس پر حملہ کر کے دو طیاروں کو 70 لاکھ پاؤنڈ کے نقصان پہنچایا تھا۔ اس قانون کے تحت اب تنظیم کی رکنیت یا اس کی حمایت پر 14 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس فیصلے نے وسیع پیمانے پر تنقید کو جنم دیا ہے۔ معروف ادیبہ سیلی رونی اور موسیقار رابرٹ ڈیل ناجا سمیت کئی اہم شخصیات نے فلسطین ایکشن کی حمایت کی ہے۔ گروپ کو ہائی کورٹ سے اس پابندی کو چیلنج کرنے کی اجازت مل چکی ہے، اور سماعت 25 ستمبر کو طے ہے۔
فلسطین ایکشن کی بانی ہدیٰ عموری نے اس فیصلے کو شہری آزادیوں پر تباہ کن قرار دیا اور کہا کہ یہ آزادیِ اظہار پر سنگین قدغن ثابت ہوگا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل یو کے کی مہم ڈائریکٹر کیری موسکوگیوری نے کہا کہ پُرامن احتجاج کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت کچلنا درست نہیں۔
یہ مظاہرے حالیہ ہفتوں میں کئی بار منعقد ہو چکے ہیں۔ اب تک 700 سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں، جن میں سے 532 کو 9 اگست کو لندن میں گرفتار کیا گیا تھا — جو 1960 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی اجتماعی گرفتاری تھی۔ ان میں مائیک ہیگنز نامی 62 سالہ نابینا اور وہیل چیئر پر موجود شخص بھی شامل تھا، جو اس ہفتے دوبارہ احتجاج میں شریک ہوا۔
اس نے صحافیوں سے کہا: “میرے پاس اور کیا راستہ ہے؟ نسل کشی روکنے کے لیے ہمارے سوا کوئی قدم نہیں اٹھا رہا۔ اور مجھے دہشت گرد کہا جاتا ہے؟ یہی سب سے بڑی سچائی ہے۔”