پاکستان میں قدرتی آفات کا سلسلہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے جاری ہے اور ہر دو سے تین سال بعد ملک کے مختلف حصے، بشمول خیبر پختونخواہ، پنجاب، بلوچستان اور سندھ، شدید سیلاب یا زلزلے کی تباہ کاریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ آفات نہ صرف لاکھوں معصوم شہریوں کے لیے درد اور غم کا باعث بنتی ہیں بلکہ ہمارے کچھ حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے لیے خوشحالی اور ذاتی مفاد کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔
ملک میں مؤثر انتباہی نظام کی کمی، آبی ذخائر کی عدم دستیابی، قدرتی ندی نالوں کی بندش، جنگلات کی کٹائی، اور غیر قانونی تعمیرات جیسے عوامل سیلاب کی شدت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں کوئی مؤثر تدبیر اختیار نہیں کی گئی، کیونکہ جب بھی سیلاب یا زلزلہ آتا ہے، حکمران اور بیوروکریٹس کو عالمی امداد کے ذریعے اپنی سیاسی اور مالی مراعات کا موقع ملتا ہے۔
2005 کے زلزلے کے بعد فوجی صدر پرویز مشرف نے عالمی ڈونرز کانفرنس کے ذریعے پاکستان کے لیے اربوں ڈالرز کی امداد حاصل کی۔ اس میں New Balakot کے نام سے نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ شامل تھا، لیکن آج 20 سال بعد بھی وہ منصوبہ عملی شکل نہیں اختیار کر سکا، جبکہ حکمران اور بیوروکریسی کے کئی محل اندرون و بیرون ملک تعمیر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح 1990 کی دہائی میں پنجاب میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی سرکاری دفاتر میں عوام کے نقصان کے بجائے اربوں روپے کے پراجیکٹس اور نئی گاڑیوں کی باتیں کی گئیں۔
اس کے علاوہ، پاکستان کے حالیہ سیلاب اور بالاکوٹ زلزلہ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیسز زیر سماعت ہیں، جس میں متاثرہ علاقوں میں نقصان کے ازالے، تعمیر نو اور متوقع حفاظتی اقدامات کا معاملہ زیر غور ہے۔ عالمی برادری نے بھی ان آفات کے دوران پاکستان کے لیے امداد اور تعاون کے وعدے کیے، مگر عملی طور پر زیادہ تر منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے۔
2022 کے سندھ سیلاب کے دوران بھی صوبائی حکمران طبقے اور بیوروکریٹس نے دولت اور پراجیکٹس میں اپنی دلچسپی ظاہر کی، جبکہ عوامی نقصان کم ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس سے واضح ہے کہ پاکستان میں حکمران، فیصلہ ساز اور بیوروکریٹس کبھی بھی سیلاب یا زلزلے کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے مستقل اور مؤثر اقدامات نہیں کرتے، کیونکہ یہ آفات ان کے سیاسی اور مالی مفادات کے لیے سازگار ثابت ہوتی ہیں۔
پاکستان میں قدرتی آفات کے مسئلے کا حل صرف شفاف منصوبہ بندی، موثر انتباہی نظام، محفوظ آبی ذخائر، ندی نالوں کی حفاظت اور انسانی فلاح و بہبود پر فوکس کرنے سے ممکن ہے۔ جب تک یہ بنیادی اصلاحات نہیں ہوں گی، تب تک ہر آفت کے بعد عوام کو نقصان اٹھانا پڑے گا اور حکمران و بیوروکریسی اپنے مفادات کے لیے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔