انڈونیشیا نے اتوار کے روز قانون سازوں کے مالی مراعات میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے، جب کہ پچھلے چند دنوں میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران کم از کم پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ احتجاج ابتدا میں ارکانِ پارلیمان کو دی جانے والی بھاری الاؤنسز پر غصے سے شروع ہوا تھا لیکن بعد میں پولیس کے رویے اور معاشی مشکلات کے خلاف بڑے عوامی ردعمل میں بدل گیا۔
یہ مظاہرے اُس وقت شدت اختیار کر گئے جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک موٹر سائیکل سوار ڈرائیور، اَفّان کورنیاوان، کو ایک پولیس وین نے روند ڈالا۔ اس واقعے کے بعد عوامی غصہ پھوٹ پڑا اور دارالحکومت جکارتہ سمیت کئی بڑے شہروں میں پرتشدد احتجاج شروع ہوگیا۔
صدر پرابوو سوبیانتو نے قوم سے خطاب میں کہا کہ پارلیمنٹ نے ارکان کو دی جانے والی بعض پالیسی مراعات، بشمول بیرونِ ملک کے دورے اور الاؤنسز، ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ کون کون سے الاؤنسز ختم کیے جائیں گے۔ صدر نے کہا کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے لیکن عوامی املاک کو نقصان پہنچانا یا گھروں کو لوٹنا بغاوت اور دہشت گردی کے مترادف ہو سکتا ہے۔
دفاعی وزیر سجا فری سجامسودین نے اعلان کیا کہ فوج اور پولیس لوٹ مار یا سرکاری و نجی اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب وزیرِ خزانہ سری مولیانی اندراواتی کے گھر کو لوٹا گیا اور کئی قانون سازوں کے گھروں پر بھی حملے ہوئے۔
مظاہروں میں شدت کے باعث مشرقی شہر مکاسر میں ایک کونسل بلڈنگ کو نذرِ آتش کر دیا گیا، جس میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ اسی شہر میں ایک اور شخص کو مبینہ طور پر انٹیلی جنس اہلکار سمجھ کر ہجوم نے مار ڈالا۔ جزیرہ لومبوک اور مشرقی جاوا کے سورابایا شہر میں بھی سرکاری عمارتوں اور پولیس ہیڈکوارٹرز کو آگ لگا دی گئی۔
صورتحال کے پیشِ نظر ٹک ٹاک نے اپنی لائیو فیچر کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے تاکہ اس پلیٹ فارم کو احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔ جکارتہ میں اسکولوں کو آن لائن کلاسز لینے کی ہدایت کی گئی جبکہ سرکاری ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا نے صدر کے بیان کو عوامی جذبات کے لیے “غیر حساس” قرار دیا اور حکومت سے وسیع پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی مشکلات اور اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خلاف عوامی غصہ اتنا گہرا ہے کہ صرف تقریروں سے صورتحال کو قابو میں لانا ممکن نہیں۔
یہ بحران صدر پرابوو کی صدارت کے دوران سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے، جس کے باعث انہیں اگلے ہفتے چین کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کرنا پڑا۔ ادھر موٹر سائیکل ڈرائیور کی ہلاکت میں ملوث سات پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن عوامی غصہ اب بھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔