کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے قومی سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی جانب سے توہینِ مذہب کے الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور ان کے اہل خانہ کی گرفتاری سے حکومتی اداروں کو روک دیا ہے۔ عدالت نے فریقین سے 21 اکتوبر تک تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت سامنے آیا جب این سی سی آئی اے نے ڈاکٹر عارف علوی اور ان کے 12 اہل خانہ کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور اس دوران ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے۔ سابق صدر نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
تحقیقات کے افسر نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر علوی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات پر تحقیقات جاری ہیں اور نوٹسز کے باوجود وہ تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے۔ تاہم ڈاکٹر علوی کے وکیل نے الزامات کو جھوٹا اور سیاسی قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ این سی سی آئی اے کو بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ الزام ایک فرد پر ہے لیکن اکاؤنٹس پورے خاندان کے بند کر دیے گئے ہیں۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد عبوری ریلیف دیتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ مزید احکامات تک ڈاکٹر علوی، ان کے بیٹے ادب علوی اور دیگر اہل خانہ کو گرفتار نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے ہدایت کی کہ سابق صدر اور ان کے اہل خانہ این سی سی آئی اے کی تحقیقات میں تعاون کریں اور طلبی پر پیش ہوں۔
یہ کیس پاکستان کے سیاسی اور قانونی منظرنامے میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے، کیونکہ ڈاکٹر عارف علوی جو 2023 میں اپنی صدارتی مدت مکمل کر چکے ہیں، مسلسل یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ ریاستی ادارے انہیں اور ان کے خاندان کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق عدالت کی مداخلت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ شفاف قانونی عمل، اختیارات کے غلط استعمال اور توہینِ مذہب کے حساس نوعیت کے مقدمات پر خدشات موجود ہیں۔
سن 2025 کے وسط میں ڈاکٹر علوی اور ان کے اہل خانہ توہینِ مذہب کے الزامات پر این سی سی آئی اے کی تحقیقات کی زد میں آئے، جب لاہور کے ایک شہری شہزادہ عدنان نے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر علوی نے مبینہ طور پر نازیبا زبان استعمال کی۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار سائبر کرائم قوانین کے تحت قانونی راستہ اختیار کرے۔
بعد ازاں، این سی سی آئی اے نے نہ صرف ڈاکٹر علوی بلکہ ان کے اہل خانہ کے خلاف بھی باضابطہ تحقیقات شروع کیں اور ان کے بینک اکاؤنٹس بلاک کر دیے۔ اس فیصلے کو ڈاکٹر علوی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، مؤقف اختیار کیا کہ الزامات ایک شخص پر ہیں لیکن سزا پورے خاندان کو دی جا رہی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے عارضی طور پر گرفتاری پر پابندی عائد کر دی اور 21 اکتوبر 2025 تک این سی سی آئی اے سے رپورٹ طلب کی۔ عدالت نے ساتھ ہی سابق صدر اور ان کے اہل خانہ کو تحقیقات میں شریک ہونے کی ہدایت دی۔
ادھر لاہور کی ایک ضلعی عدالت میں بھی ڈاکٹر علوی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ کسی بھی قانونی کارروائی سے قبل علما بورڈ سے رائے لی جائے کہ آیا مبینہ ریمارکس توہینِ مذہب کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔ یہ فیصلہ اس معاملے کی حساسیت اور عدلیہ کی احتیاط کی نشاندہی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کو اکثر سیاسی انتقام، ذاتی دشمنی یا بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر سائبر کرائم کے مقدمات میں، جہاں جعلی مواد یا ایڈیٹ شدہ ویڈیوز کے ذریعے لوگوں کو پھنسانا آسان ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر علوی کا کیس نہ صرف ایک سابق صدر کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے بلکہ این سی سی آئی اے کے اختیارات اور پورے خاندان کو اجتماعی سزا دینے کے تصور پر بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔