اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو بڑی ریلیف مل گئی، سپریم کورٹ نے جمعرات کو ان کے آٹھ مئی 9 مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں منظور کرلیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ، جس میں جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد شفیع شامل تھے، نے یہ فیصلہ سنایا۔ عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے جون 2023 میں ضمانت کی درخواستیں خارج کردی تھیں جن میں جناح ہاؤس لاہور پر حملے سمیت دیگر مقدمات شامل تھے۔ عمران خان کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر میں کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں، الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ اس وقت نیب کی حراست میں تھے، اس لیے ان کا واقعات میں ملوث ہونا ممکن ہی نہیں۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ تین گواہوں کے بیانات، واٹس ایپ پیغامات اور فوٹو گرامیٹک و وائس میچنگ ٹیسٹ عمران خان کے خلاف موجود ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شواہد کا جائزہ ٹرائل کورٹ میں ہونا چاہیے، سپریم کورٹ سے اس حوالے سے کوئی حتمی رائے نہ لی جائے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ آٹھ مقدمات میں چالان پیش نہیں ہوئے اور خان صاحب صرف تین ایف آئی آر میں نامزد ہیں، باقی میں ان کا کوئی ذکر تک نہیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے زبانی فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کرلیں۔
یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے، جن میں فوجی اور سرکاری تنصیبات پر حملے بھی شامل تھے۔ سابق وزیر اعظم، جنہیں اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تھا، اگست 2023 سے جیل میں قید ہیں اور ان پر کرپشن سے لے کر دہشت گردی تک کے متعدد مقدمات قائم ہیں۔