کراچی — منگل کے روز پاکستان کے بیشتر حصے انٹرنیٹ سے محروم رہے جب ایک ملک گیر خرابی نے کاروباری سرگرمیوں، بینکاری خدمات، تعلیم اور روزمرہ رابطوں کو متاثر کیا۔ ماہرین کے مطابق یہ حالیہ برسوں میں سب سے سنگین تکنیکی بندشوں میں سے ایک ہے۔
وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (وسپاپ) کے مطابق تقریباً دو تہائی صارفین متاثر ہوئے۔ ادارے نے بتایا کہ یہ تعطل اسی تاریخ کو پیش آیا جس روز 2022 میں ملک گیر بلیک آؤٹ ہوا تھا، جب تباہ کن سیلابوں نے مرکزی فائبر لائنز کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس اتفاق نے پاکستان کے کمزور ڈیجیٹل ڈھانچے پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
“یہ ایک قومی ناکامی ہے،” وسپاپ کے چیئرمین شہزاد ارشد نے کہا۔ “پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش اب حادثہ نہیں بلکہ معمول بنتی جا رہی ہے۔ 2025 میں دو تہائی ملک کا اندھیرے میں چلے جانا، عین اسی تاریخ کو جب 2022 میں بھی یہی ہوا تھا، حکومت کے ہر درجے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔”
شہزاد ارشد نے کہا کہ انٹرنیٹ تک قابلِ اعتماد رسائی اب بجلی کی طرح ناگزیر ہے، کیونکہ اسپتالوں، فری لانسرز، طلبہ اور بینکوں سمیت سب کا انحصار مسلسل رابطے پر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ “ہر ایک گھنٹے کی بندش پاکستان کو کروڑوں کا نقصان پہنچاتی ہے اور ہماری ساکھ کو عالمی سطح پر متاثر کرتی ہے۔”
ایسوسی ایشن نے ریگولیٹرز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈھانچے کو متنوع بنانے کے لیے مزید پرووائیڈرز کی حوصلہ افزائی کریں، علاقائی انٹرنیٹ ایکسچینج قائم کریں اور متبادل نظام میں سرمایہ کاری کریں۔ اگرچہ چھوٹے آئی ایس پیز بعض کمیونٹیز کو ایسے بلیک آؤٹس کے دوران آن لائن رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں، لیکن شہزاد ارشد نے خبردار کیا کہ جامع اصلاحات کے بغیر وہ مرکزی نظام کی ناکامی کی تلافی نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا: “پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل چند کمزور نکات پر یرغمال نہیں رہ سکتا۔ ہمیں فیصلہ کن اصلاحات کی ضرورت ہے، بار بار کی معذرتوں کی نہیں۔”