اسرائیلی فوج کے غزہ میں داخلے کے بعد حملے تیز، سیکڑوں شہید اور لاکھوں بھوک و افلاس کے شکار

غزہ – اسرائیلی فوج نے غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی دستے داخل کرنا شروع کر دیے ہیں، جس کے بعد بدھ کی صبح سے اب تک کم از کم 81 فلسطینی اسرائیلی حملوں اور بھوک کے باعث شہید ہو چکے ہیں۔ فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کے ابتدائی مراحل کا آغاز کر دیا ہے، جو محاصرے کا سب سے بڑا شہری مرکز ہے اور جہاں تقریباً دس لاکھ افراد شدید خطرناک حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔

بھوک اور حملوں دونوں سے ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ کے روز مزید تین فلسطینی بھوک سے جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد بھوک سے ہونے والی اموات کی مجموعی تعداد 269 تک پہنچ گئی ہے، جن میں 112 بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کے لیے قائم ایک خیمہ نشانہ بنا، جس میں تین افراد جاں بحق ہوئے۔ ان ہلاکتوں میں سابق قومی باسکٹ بال کھلاڑی محمد شعلان بھی شامل تھے، جنہیں امداد کی تقسیم کے مقام پر اسرائیلی فوج نے گولی مار دی۔ اس دن کم از کم 30 امداد کے متلاشی افراد شہید ہوئے۔

اسرائیلی محاصرے اور حملوں نے غزہ میں انسانی بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے خبردار کیا ہے کہ غذائی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ادارے نے کہا کہ یہ محض بھوک نہیں بلکہ قحط ہے، جو بچوں کی نشوونما کو مستقل نقصان پہنچا رہا ہے، قوتِ مدافعت کو کمزور کر رہا ہے اور معمولی بیماریاں بھی جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔ یو این آر ڈبلیو اے (UNRWA) کے مطابق غزہ شہر کے ہر تین میں سے ایک بچہ اب غذائی قلت کا شکار ہے۔

اسرائیلی حقوق گروپ “گیشا” نے حکومتی بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے امدادی سامان کے داخلے پر کنٹرول کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور ابتدا ہی سے امداد کی ترسیل تقریباً ناممکن بنا دی گئی ہے۔

ایندھن کی شدید قلت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ غزہ کی سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ ان کے ریسکیو آپریشن اکثر ایندھن یا پرزہ جات کی کمی کی وجہ سے معطل ہو جاتے ہیں، جس سے جانیں بچانے کی کوششوں میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ یو این آر ڈبلیو اے کے عملے نے بتایا کہ وہ تباہ کن حالات میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اکثر سخت دھوپ میں طویل فاصلہ پیدل طے کر کے اپنے مراکز پہنچتے ہیں تاکہ مریضوں کی مدد کر سکیں۔

اس فوجی کارروائی کے حصے کے طور پر اسرائیل نے 60 ہزار ریزروسٹ فوجیوں کو طلب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹینک اور زمینی دستے غزہ شہر کے مرکز کے قریب پہنچ چکے ہیں اور زیتون اور جبالیا کے علاقوں میں بمباری تیز کر دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفان دوجارک نے خبردار کیا ہے کہ اس پیش قدمی سے مزید لاکھوں افراد کو بے گھر ہونا پڑ سکتا ہے، جو پہلے ہی کئی بار اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

حماس نے اس کارروائی کو “بے گناہ شہریوں کے خلاف ظالمانہ جنگ” قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل غزہ شہر کو تباہ کر کے اس کے باسیوں کو جبراً بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے بھی حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے حماس کی جانب سے منظور شدہ جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر کے ایک سنگین غلطی کی ہے۔

اس دوران قطر اور مصر کی ثالثی میں ایک فریم ورک زیر غور ہے جس میں 60 روزہ جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ اور امداد کی فراہمی شامل ہے۔ یہ تجویز امریکہ کی حمایت یافتہ ہے، مگر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اب تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور اصرار کیا ہے کہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اسرائیلی شرائط کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔

بین الاقوامی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ کی صورتحال “قیامت خیز” ہے۔ سیو دی چلڈرن کے علاقائی ڈائریکٹر احمد الہنداوی نے کہا کہ یہ نسل ناقابلِ بیان المیے سے گزر رہی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 62 ہزار سے زائد فلسطینی اس جنگ میں جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ عالمی برادری پر فوری اقدام کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

Source: Al Jazeera and news agencies

اپنا تبصرہ لکھیں