یورپین رہنماؤں کا زیلنسکی کے ساتھ واشنگٹن میں طاقت کا مظاہرہ، یوکرین نے زمین کے تبادلے کی تجویز مسترد کی

(ویب ڈیسک)؛ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی پیر کے روز واشنگٹن میں اہم ملاقاتوں کے لیے پہنچیں گے جہاں یورپی رہنما بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ اس کا مقصد روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ الاسکا سربراہی اجلاس میں فوری جنگ بندی کے مطالبے سے پیچھے ہٹتے ہوئے ماسکو کے مؤقف سے ہم آہنگ رویہ اختیار کیا۔

الاسکا اجلاس سے قبل جنگ بندی ٹرمپ کی بنیادی شرط قرار دی جارہی تھی، لیکن اجلاس کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہوا۔ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ پیوٹن پہلی مرتبہ اس بات پر راضی ہوئے ہیں کہ امریکہ اور یورپی اتحادی یوکرین کو نیٹو کے آرٹیکل 5 جیسی سلامتی کی ضمانت فراہم کر سکیں، جسے ممکنہ امن معاہدے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

زیلنسکی نے برسلز میں یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیر لائن اور دیگر یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ کسی بھی امن مذاکرات کی بنیاد موجودہ محاذی لکیر ہونی چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ جامع تصفیے سے پہلے فوری جنگ بندی ناگزیر ہے۔ یورپی رہنماؤں نے ان کے مؤقف کی حمایت کی۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ نے پس پردہ ایک منصوبہ تجویز کیا ہے جس کے تحت یوکرین امن معاہدے کے بدلے اپنی کچھ زمین روس کو دے دے۔ تاہم کیف اور اس کے یورپی اتحادیوں نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق یہ روس کی جنگی پیش قدمی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے اور یوکرین کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ان خدشات کے پیش نظر یورپی رہنما پیر کو زیلنسکی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ موجودگی دکھائیں گے۔ ان رہنماؤں میں جرمن چانسلر فریڈرک مرز، فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون، برطانوی وزیراعظم کیر اسٹرمر، نیٹو سیکرٹری جنرل مارک رُٹے، فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر سٹب، اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی اور ارسلا فان ڈیر لائن شامل ہیں۔ برلن نے کہا کہ ملاقات میں سلامتی کی ضمانتیں، روس پر پابندیاں اور یوکرین کے لیے فوجی و مالی امداد کے تسلسل پر بات ہوگی۔

فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ یورپی اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اگر آج روس کے سامنے کمزوری دکھائی گئی تو مستقبل کے تنازعات کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔

یہ ملاقات اس پس منظر میں بھی اہم ہے کہ فروری میں وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی کو کھلے عام جھاڑ پلائی تھی اور انہیں ناشکرا قرار دیا تھا، جس کے بعد واشنگٹن اور کیف کے تعلقات میں خفگی کے آثار نمایاں ہیں۔

زیلنسکی نے اگرچہ سفارتی کوششوں کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن بارہا واضح کیا ہے کہ یوکرین اپنی زمین کا کوئی حصہ امن کے بدلے میں نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ روس کو پائیدار امن کے لیے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی حقیقی خواہش کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں