اسلام آباد؛ شدید مون سون بارشوں اور تباہ کن سیلابی ریلوں نے خیبرپختونخوا میں تباہی مچادی، جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 338 جبکہ زخمیوں کی تعداد 156 تک جا پہنچی ہے۔ صوبائی حکومت نے ایمرجنسی نافذ کردی ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں ہزاروں افراد بے گھر اور درجنوں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں بونیر، شانگلہ، سوات، مانسہرہ اور باجوڑ شامل ہیں جہاں طغیانی میں گھر، پل اور سڑکیں بہہ گئیں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق وزیرِاعظم کی ہدایت پر وفاقی وزرا کو مختلف اضلاع میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی پر مامور کیا گیا ہے۔ امیر مقام شانگلہ اور بونیر، اویس لغاری بونیر، سردار یوسف مانسہرہ جبکہ مبارک زیب باجوڑ میں امدادی کام دیکھیں گے۔ وزیراعظم ریلیف پیکج کے تحت خوراک، ادویات اور خیمے متاثرہ علاقوں میں تقسیم کیے جارہے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق 89 ٹرک متاثرہ اضلاع تک پہنچا دیے گئے ہیں جن میں خاندانی خیمے، سردیوں کے لیے خصوصی خیمے، گدے، حفظانِ صحت کٹس، کچن سیٹس، مچھر دانیاں، کمبل، ترپال، سولر لیمپ، پانی کے کین، ڈی واٹرنگ پمپس اور لائف جیکٹس شامل ہیں۔ ادارے نے فوری امداد کے لیے 80 کروڑ روپے جاری کیے ہیں جن میں سے صرف بونیر کے لیے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پاک فوج بھی بونیر، شانگلہ اور سوات میں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں کر رہی ہے۔ خراب موسم کے باوجود فوجی ہیلی کاپٹر خوراک کی اشیاء متاثرہ دیہات میں گرا رہے ہیں اور پھنسے ہوئے افراد کو نکال رہے ہیں۔ فوجی میڈیکل ٹیموں نے دیہی علاقوں میں عارضی کیمپس قائم کیے ہیں جہاں مفت علاج اور ادویات فراہم کی جارہی ہیں۔
صوبائی حکام کے مطابق بونیر میں 209، شانگلہ میں 36، مانسہرہ میں 24، باجوڑ میں 21، سوات میں 16، لوئر دیر میں پانچ جبکہ بٹگرام میں تین افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر 159 مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ اور 57 اسکول متاثر ہوئے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے سوات کے دورے کے دوران اعلان کیا کہ سیلابی خطرات والے علاقوں سے خاندانوں کو منتقل کیا جائے گا اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریلیف مرحلہ تقریباً مکمل ہے اور اب بحالی پر توجہ دی جائے گی۔ وزیرِاعلیٰ نے دریا کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت کارروائی کا بھی اعلان کیا۔
ریسکیو 1122 نے صرف بونیر میں 850 سے زائد افراد کو بچایا جبکہ 181 لاشیں مختلف دیہات جیسے گدیزی، بیشونی، ملک پور اور بالوخان سے نکالی گئیں۔ نو اضلاع میں تقریباً دو ہزار اہلکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
سابق وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے تباہی کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی کو قرار دیا اور خبردار کیا کہ جنگلات میں کمی اور بے قابو کٹائی نے سوات اور چترال جیسے علاقوں کو مزید خطرناک سیلابوں کے لیے بے رحم بنا دیا ہے۔
ادھر پنجاب پی ڈی ایم اے نے سیاحوں کے مری اور دیگر شمالی علاقوں کے سفر پر پابندی لگادی ہے تاکہ لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈ کے خطرات سے بچا جاسکے۔ مقامی انتظامیہ کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دور دراز وادیوں میں ملبہ ہٹانے کے بعد مزید لاشیں ملنے کا خدشہ ہے، جبکہ کئی علاقوں میں بجلی اور ٹیلی مواصلات کا نظام تاحال معطل ہے جس سے امدادی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔