کراچی – سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے بدھ کے روز متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کی تیاری سے متعلق تفصیلی رپورٹ پانچ ہفتوں کے اندر عدالت میں جمع کرائی جائے۔ یہ ہدایت ایک درخواست کی سماعت کے دوران دی گئی جس میں صوبے کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ درخواست طالب علم رہنما تیمور احمد اور دیگر نے ایڈووکیٹ عثمان فاروق کے توسط سے دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ طلبہ یونین پر پابندی کے باعث طلبہ کی نمائندگی کمزور ہوئی، ان کے اجتماعی مسائل اجاگر کرنے کی صلاحیت محدود ہوگئی اور کیمپس میں صحت مند سیاسی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوگیا۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل وزارت یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کیے گئے اقدامات پر وضاحت طلب کی گئی تھی۔ جواب میں جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر لیگل نے بیان جمع کرایا کہ طلبہ یونین انتخابات کے لیے قواعد و ضوابط کی تیاری کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
وکیل کے مطابق، جامعہ کراچی کی سنٹرل اسٹوڈنٹس ایڈوائزری کونسل نے طلبہ یونین کا مجوزہ آئین تیار کرلیا ہے، جسے مزید جائزے اور منظوری کے لیے سیکریٹری یونیورسٹیز کو ارسال کیا گیا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ انتخابات کرانے سے قبل ضروری ضابطہ جاتی اور انتظامی فریم ورک مکمل ہونا چاہیے، اور اس ضمن میں پانچ ہفتوں کے اندر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
پس منظر: پاکستان میں طلبہ یونین پر 1984 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیمپس میں تشدد اور سیاسی جھڑپوں کے خدشات کے پیش نظر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 1993 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے کچھ پابندیوں کے ساتھ طلبہ سوسائٹیز کی اجازت دی، مگر باضابطہ طلبہ یونین کا نظام بحال نہ ہوسکا۔ حالیہ برسوں میں اس حوالے سے بحث دوبارہ زور پکڑ چکی ہے۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ طلبہ یونین جمہوری اقدار، قیادت کی صلاحیتوں اور سیاسی شعور کو پروان چڑھانے کے لیے ناگزیر ہیں، جبکہ مخالفین کو خدشہ ہے کہ ان سے سیاسی جماعتوں کی مداخلت اور کیمپس میں بدامنی بڑھ سکتی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کی یہ کارروائی پاکستان کی جامعات اور کالجز میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جاری طویل قانونی اور سیاسی جدوجہد کا ایک اہم سنگِ میل تصور کی جارہی ہے۔